آج یہ مسئلہ عالمگیر حیثیت اختیار کر چکا ہے اور کم ہونے کےبجائے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی بے پناہ ترقی ، اینڈورائیڈ موبائل فونز‘ کمپیوٹرز گیمز اور انٹرنیٹ نے انسان کا انسان سےرابطہ کاٹ دیا ہے ۔
شرم وحیا اور شرمیلاپن لڑکیوں کے زیور ہیں۔ مشرق کے روایتی ماحول میں اس کی بڑی اہمیت ہے ۔ وکٹوریائی دور کے انگلستان میں بھی شرم وحیاء کو لڑکیوںکی صفت سمجھا جاتاتھا ، لیکن دنیا میں لاکھوں کروڑوں مرد وزن ایسے بھی ہیں جن میں شرمیلاپن بڑھتے بڑھتے ایک شدید مسئلے کی شکل اختیار کرلیتاہے ۔ یہ شدیدشرمیلا پن انسان کو کم زور بنا دیتا ہے۔ یوں اس کی ترقی کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں،باہمی تعلقات پر کاری ضرب لگتی ہے ، جسمانی عوارض پیدا ہونے لگتے ہیں اور اکثر انسان خود کشی پر آمادہ ہو جاتاہے ۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے کہ جب شرمیلاپن خوف اور سماج ترسی کی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ آج یہ مسئلہ عالمگیر حیثیت اختیار کر چکا ہے اور کم ہونے کےبجائے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی بے پناہ ترقی ، اینڈورائیڈ موبائل فونز‘ کمپیوٹرز گیمز اور انٹرنیٹ نے انسان کا انسان سےرابطہ کاٹ دیا ہے ۔ٹیکنا لوجی کے انقلاب کے اس دور میں ہم معلومات کا باہمی تبادلہ کرتے ہیں لیکن اس میں ہمارے جذبات کو قطعی دخل نہیں ہوتا۔ جب بڑوں اور بچوں کو ایک دوسرے سے آمنا سامنا نہ ہو اور ایک دوسرے کے جذبات اور چہرے کے تاثرات محسوس نہ کریں آپس میں گفتگونہ کریں ، آپس میں کھیلنے کے بجائے کمپیوٹرسے کھیلیں اور نانی دادی سے کہانی سننے کے بجائے موبائل فونز دل بہلالیں تو نتیجہ یقیناًسماج ترسی کی شکل میں ظاہر ہو گا۔ اب تو یہ شرمیلاپن اتنا بڑھا ہے کہ بعض ذرائع کےمطابق دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی خود کو ’’شرمیلا‘‘ سمجھنے لگی ہے ۔ ماہرین نفسیات کے خیال میں ان ہر دس ’’شرمیلوں‘‘ میں سے ایک ایسا ضرور نکل آتا ہے جس پر سماج ترسی کی بات صادق آتی ہے ۔ کم بولنا، ہونٹ بند رکھنا، بولنے میں دقت محسوس کرنا، تنہائی پسند بن جانا، منہ سرخ ہو جانا ، کپکپانا ، لوگوں سے نظریں چرانا، ملنے جلنے سے ہچکچانا اور محفل میں ڈرے سہمے رہنا، یہ سب سماج ترسی کی علامات ہیں جو ماہرین نفسیات کے مطابق شرمیلے پن کی انتہائی کیفیت ہے۔ جو لوگ اس بیماری کا شکارہیں وہ اپنی ناکامی کا ذمہ دار تو خود کو ٹھہراتے ہیں، لیکن جب انہیں کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس کی فوجہ خارجی عوامل کو قرار دیتے ہیں ۔ وہ اپنے طرز عمل کو ناکافی اور غلط سمجھتے ہیں ۔ اپنے بارے میں صرف منفی باتیں یاد رکھتے ہیںاور اپنے متعلق دوسروں کی نکتہ چینی کو بلاحیل وحجت تسلیم کرلیتے ہیں ۔ شرمیلے پن، جھجک یا سماج ترسی کی وجوہ بڑی پیچیدہ ہیں اور لوگ انہیں پوری طرح سمجھ نہیں پاتے ، تازہ ترین نظریےکے مطابق اس کیفیت کا تعلق ایک طرف انسان کے مورثوں (جینز) اور دوسری طرف اسکے سماجی ماحول سے قائم کیا جاتاہے ۔ ایک کے رجحان اور امکان کے ساتھ جنم لیتے ہیں ۔ بعض ماہرین نفسیات کے خیال میں ان کی دو قسمیں ہیں : ایک وہ کیفیت جو بالکل ابتدائی عمر میں شروع ہوتی ہے اور خوف ناک شرمیلے پن کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے ۔ دوسری شکل وہ ہے جو زندگی میں آگے چل کر شروع ہوتی ہے اور خود شعوری شرمیلے پن کی شکل اختیار کرتی ہے ۔ پہلی قسم کا شرمیلا پن اکثرزندگی کے پہلے ہی سال میں شروع ہو جاتاہے اور خیال ہے کہ یہ جزوی طورپر موروثی ہوتاہے ۔ زیادہ لوگوں میں شرمیلا پن ، جھجک اور سماج ترسی موروثی کے بجائے ماحول کا ’’ عطیہ ‘‘ ہوتی ہے یعنی یہ کہ ان کے ساتھ بچپن میں کیا سلوک کیا گیا ہے اور کیا رویہ اختیار کیا گیا ہے ۔ بچپن میں انھیں یہ باور کرایا جاسکتاہے ہے کہ وہ خاص بچے ہیں ، وہ اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں اور لوگ انھیں پسند کرتے ہیں یا اس کے بر عکس یہ بات ان کے ذہن نشین کرائی جاسکتی ہے کہ انھیں ہر وقت چوکنا اور محتاط رہنا چاہئے ، یہ دنیا بہت بری ہے اور لوگ ان کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھاکر انھیں نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ پروفیسر فلپ کے مطابق زیادہ نظر انداز کیے جانے والے مریض علاج معالجے کے سلسلے میں خود معالجین ہوتے ہیں ۔ برٹش میڈیکل جرنل کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق معالجین نفسیاتی طور پر اس دبائو میں رہتے ہیں کہ اپنے مریضوں کے سامنے مکمل طور پر صحت مند نظر آنےکی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔ کوئی بھی معالج یہ نہیں چاہتا کہ وہ اپنے مریضوں کی نظرمیں بیمار لگے اپنے دوستوں اور رفیق کاروں کی طرف سے ان پر دوسرا دبائو یہ رہتا ہے کہ انہیں معالج کی بیماری کا علم ہوجائے گا تو اس کے مریضوں کے علاج کی ذمے داری ساتھی معالجین پر آ پڑے گی جس کی وجہ سے ہو سکتاہے ان کے علاج کی بھاری ذمے داری انھیں بھی بیمار ڈال دے اس سروے کے نتیجے میں معالجین نے تسلیم کیا کہ وہ اپنی صحت کے سلسلے میں مثبت انداز اختیار نہیں کرتے ہیں ۔ اگر زیر علاج مریض میں وہی علامات موجود ہوں جن سے خود معالج بھی دو چار ہو تو اصولاََ اسے بھی مریض ہی کی طرح گھر پر آرام کرنا چاہیے ان کے مریض جن نفسیاتی شکایات میں مبتلا ہوں خود وہ بھی اس کے شکار ہو سکتے ہیں اور انھیں بھی مریض کی طرح ان شکایا ت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں